مسلمان کم و بیش ایک ہزار سال تک دنیا کی ایک بڑی طاقت رہے ہیں۔ علم و حکمت، تدبیر و سیاست اور دولت و حشمت میں کوئی قوم اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ پوری دنیا پر حکومت کر رہے تھے۔ یہ بادشاہی خدا نے اُنھیں دی تھی اور خدا ہی نے اُن سے چھین لی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں خدا کا قانون یہ ہے کہ وہ سرفرازی کے لیے تو جسے چاہتا ہے، اپنے قانون ابتلا کے مطابق منتخب کر لیتا ہے، لیکن جب ایک مرتبہ منتخب کر لیتا ہے تو اُس کی یہ حالت اُسی وقت تبدیل کرتا ہے، جب علم و اخلاق کے لحاظ سے وہ اپنے آپ کو پوری طرح پستی میں گرا دیتی ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ ایک دوسرا معاملہ بھی ہوا ہے۔ اُن کی اصل ہمیشہ عرب رہے ہیں۔ وہ زیادہ تر بنی اسمٰعیل ہیں اور بنی اسمٰعیل کے بارے میں معلوم ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت ہیں۔ چنانچہ اُن پر اُس سنت الٰہی کا اطلاق بھی ہوتا ہے جو قرآن میں ذریت ابراہیم سے متعلق بیان ہوئی ہے۔ وہ سنت یہ ہے کہ یہ لوگ اگر حق پر قائم ہوں تو اِنھیں قوموں کی امامت حاصل ہو گی اور اُس سے انحراف کریں تو اِس منصب سے معزول کر کے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کر دیے جائیں گے۔
چنانچہ مسلمان اگر اِس عذاب میں مبتلا ہیں تو یہ کوئی الل ٹپ معاملہ نہیں ہے اور نہ دوسروں کی سازش کے نتیجے میں ہوا ہے، جس طرح کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی زعما بالعموم کہتے ہیں۔ اِس کے متعین اسباب ہیں، یہ اُنھی کے تحت ہوا ہے۔ اِس کے پیچھے خدا کا قانون عزل و نصب کار فرما ہے۔ اُس کی روشنی میں اِسے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو زوال کے اسباب بالکل واضح ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔
یہ بنیادی طور پر تین ہیں:
اولاً، مسلمان کتاب الٰہی کے حامل بنائے گئے تھے۔ یہ محض کتاب نہیں ہے۔ یہ خدا کی میزان ہے جو اِس لیے نازل کی گئی ہے کہ دین کے معاملے میں تمام حق و باطل کا فیصلہ اِسی پر تول کر کیا جائے۔ مسلمان اپنے تمام اختلافات اِس کے سامنے پیش کریں اور جو فیصلہ اِس کی بارگاہ سے صادر ہو جائے، بے چون و چرا اُسے قبول کر لیں۔ یہ اُن کے علم و عمل کا مرکز ہو۔ ایمان و عقیدہ اور دین و شریعت کے تمام معاملات میں یہی مرجع بنے، ہر تحقیق، ہر راے اور ہر نقطہ نظر کو ہمیشہ اِس کے تابع رکھا جائے، یہاں تک کہ خدا کے پیغمبروں کی کوئی بات بھی اِس پر حکم نہ سمجھی جائے، بلکہ ہر چیز پر اِسی کو حکم مانا جائے۔ گذشتہ کئی صدیوں سے مسلمان بدقسمتی سے کتاب الٰہی کی یہ حیثیت اپنے علم و عمل میں برقرار نہیں رکھ سکے۔ چنانچہ اقبال کے الفاظ میں 'خوار از مہجوریِ قرآں شدی' * کا مصداق بن کر رہ گئے ہیں۔
ثانیاً، دنیا عالم اسباب ہے۔ یہ اسباب زیادہ تر سائنسی علوم میں انسان کی مہارت سے پیدا ہوتے ہیں۔ خدا نے اپنے جو خزانے زمین و آسمان میں مدفون رکھے ہوئے ہیں، وہ اِسی مہارت سے نکالے جا سکتے ہیں۔ انسان کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عروج و زوال تو ایک طرف، اُس کے مرنے اور جینے کا انحصار بھی بیش تر اِنھی علوم میں مہارت پر رہا ہے۔ آگ کی دریافت اور پہیے کی ایجاد سے لے کر دور جدید کے حیرت انگیز انکشافات تک یہ حقیقت تاریخ کے ہر صفحے پر ثبت ہے۔ مسلمانوں کو اِن علوم سے دل چسپی تو ہوئی، مگر اُن کے ذہین عناصر کا اشتغال زیادہ تر فلسفہ اور تصوف سے رہا، حالاں کہ اِس کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ فلسفہ و تصوف جن سوالات سے بحث کرتے ہیں، خدا کی کتاب حتمی حجت کی حیثیت سے اُن کا جواب لے کر نازل ہو چکی تھی۔ اِن علوم کے ساتھ اشتغال نے مسلمانوں کو خدا کی کتاب سے بھی بے گانہ رکھا اور سائنسی علوم سے بھی۔ پرانے مدرسوں میں وہ اب بھی فلسفہ و تصوف کے وہی مباحث دہرا رہے ہیں جو 'علم لا ينفع' ** کی بہترین مثال ہیں۔ چنانچہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور وہ تصویر حیرت بنے ہوئے ہیں۔
ثالثاً، مسلمانوں نے اپنی اخلاقی تربیت سے شدید غفلت برتی ہے۔ یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ جھوٹ، بددیانتی، غبن، خیانت، چوری، غصب، ملاوٹ، سود خوری، ناپ تول میں کمی، بہتان طرازی، وعدے کی خلاف ورزی، سفلی علوم سے اشتغال، ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق، قبروں کی پرستش، مشرکانہ رسوم، بے ہودہ تفریحات اور اِس نوعیت کے دوسرے جرائم اُن کے معاشروں میں اِس قدر عام ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ بنی اسرائیل کے یہی جرائم تھے جن کی بنا پر خدا کے نبیوں نے اُن پر لعنت کی تھی اور وہ ہمیشہ کے لیے خدا کی رحمت سے دور کر دیے گئے۔ مسلمان بھی اِسی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اُن کی تصویر دیکھنا ہو تو انجیل کے صفحات میں دیکھ لی جا سکتی ہے، جہاں سیدنا مسیح علیہ السلام نے بنی اسرائیل اور اُن کے علما و احبار، دانش وروں اور ارباب حل و عقد کی فرد قراردادجرم بیان کی ہے۔ اُن کے درودیوار، گلیاں اور بازار، سب پکارتے ہیں " یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود"۔
مسلمانوں کا زوال اِن اسباب سے ہوا ہے۔ وہ انحطاط و زوال کی اِس حالت سے نکلنا چاہتے ہیں تو نہ جہاد و قتال سے کچھ ہو سکتا ہے، نہ مزاحمت کی تحریکوں سے۔ سرنگا پٹم سے افغانستان تک پچھلے دو سو سال کی تاریخ اِس کی گواہی دیتی ہے۔ اِس سے نکلنے کے لیے اُنھیں وہ اسباب دور کرنا ہوں گے جو اُن کے زوال کا باعث بنے ہیں، ورنہ یہی ذلت و نکبت اور محکومی ہمیشہ اُن کا مقدر رہے گی۔ خدا کا قانون بے لاگ ہے۔ وہ اُس کی زد میں آچکے ہیں۔ وہ جب دوسروں سے لڑ کر اِس سے نکلنا چاہتے ہیں تو درحقیقت خدا سے لڑ رہے ہوتے ہیں جس نے اپنے 'اولی باس شدید'بندے اُن پر مسلط کر دیے ہیں۔ یہ خدا کا عذاب ہے۔ اِس سے بچنے کے راستے وہ نہیں ہیں جو اُن کے مذہبی اور سیاسی رہنما اور بزعم خود مجاہدین اُنھیں بتا رہے ہیں۔ اِن راستوں پر چل کر نہ وہ بڑی طاقتوں کا اثرورسوخ اپنے ملکوں میں ختم کر سکتے ہیں، نہ فلسطین اور کشمیر سے یہودوہنود کو نکال سکتے ہیں۔ وہ قرآن اور بائیبل، دونوں میں انبیا علیہم السلام کی دعوت کا مطالعہ کریں۔ خدا کے پیغمبر بابل کی اسیری کے زمانے میں آئے ہوں یا رومی حکمرانوں کے دور میں، اُنھوں نے کبھی یہ راستے اپنی قوم کو نہیں بتائے۔ وہ اپنی قوم کے جرائم اُسے بتاتے تھے، یہ دوسروں کے جرائم ڈھونڈنے اور اُنھیں بُرا بھلا سنانے کو اپنا ہنر سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اُسے ابتدا سے انتہا تک دیکھ لیجیے۔ بابل اور روم کے حکمرانوں کے خلاف آپ مذمت کا ایک لفظ اُس میں نہیں دیکھیں گے، بلکہ ہر جگہ بنی اسرائیل کی فرد قرار داد جرم دیکھیں گے۔ یہی فرد جرم اِس وقت مسلمانوں کو بھی سنانے کی ضرورت ہے، اِس لیے کہ خدا کا جو وعدہ بنی اسرائیل سے تھا، وہی مسلمانوں سے ہے کہ تم میرے عہد کو پورا کرو، میں تمھارے ساتھ اپنے عہد کو پورا کروں گا۔ میری رحمت منتظر ہے، لیکن اِنھی راستوں پر چلتے رہو گے تو میں بھی اُسی راستے پر چلوں گا جس پر چل رہا ہوں اور میرے عذاب کا تازیانہ تمھاری پیٹھ پر برستا رہے گا۔ فاعتبروا يا اولی الابصار۔
ـــــــــــــــــــــــــ
* تم قرآن کو چھوڑ کر خوار ہوئے ہو۔
** وہ علم جو نفع نہ دے۔