مسلمانوں کا عروج و زوال

مسلمانوں کا عروج و زوال پروفیسر محمد شکیل صدیقی ”قوموں کا عروج و زوال“ تاریخ کا ایک اہم موضوع بھی ہے اور علم بھی۔ اس کا شمار علومِ نقلیہ میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید ہرچند کہ تاریخ کی کتاب نہیں ہے تاہم قوموں کے عروج و زوال کے اصول اور تاریخ کی سب سے مستند اور اولین کتاب ہے۔ اللہ سبحانہ ¾ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسانوں کی ہدایت و رہنمائی اور درسِ عبرت و نصیحت کے لیے اُممِ سابقہ کے عروج و زوال کے اصول و قواعد اور واقعات کو متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بے بس اور مجبورِ محض نہیں بنایا ہے بلکہ اختیار و ارادے کی آزادی عطا کی ہی، انسان اپنی قوت ِارادی و عمل سے عروج و ترقی حاصل کرسکتا ہے۔ چنانچہ قوموں کے عروج و سربلندی کے حوالے سے یہ اصول بتایا کہ: ”اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ اس کے افراد اپنے آپ کو نہ بدلیں۔“
(2:13) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بھی بتادیا کہ جو افراد اور قومیں ذاتی تعیش کے لیے کمزوروں اور مظلوموں پر ظلم ڈھاتی ہیں اور عیش و عشرت میں مبتلا ہوکر انسانیت سے گرجاتی ہیں تو انہیں ہوسکتا ہے کچھ مدت کے لیے ڈھیل مل جائی، وہ اس لیے کہ شاید اپنی سرشت سے باز آجائیں، لیکن اگر وہ اپنی روش تبدیل نہیں کرتیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ہلاک کردیتا ہی: ”ہم کسی آبادی کو ہلاک نہیں کرتے بجز اس کے کہ اس کے افراد ظالم ہوں۔“(القرآن) اللہ سبحانہ ¾ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ان چیزوں کی بھی صراحت کے ساتھ نشاندہی کردی ہے جو کہ تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ فرمایا کہ: ”لوگوں کے لیے زینت رکھی گئی ہے عورتوں، بیٹیوں اور چاندی سونے کے اکٹھے کیے ہوئے ڈھیروں اور نشان کیے ہوئے گھوڑوں، چوپایوں اور کھیتوں کی محبت میں، یہ تو دنیوی زندگی کی متاع ہے اور اللہ کے یہاں اس سے بہتر پناہ گاہ ہے۔“ (2:3) یہ وہ چیزیں ہیں جو انسانی فساد کا باعث ہیں۔ یہ چیزیں ہیں جو حرص و ہوس، لذت طلبی، عیش کوشی اور حصول زر میں اس طرح مبتلا کردیتی ہیں کہ انسان خودغرض ہوجاتا ہی، اور اس کی خودغرضی بدترین ظلم و استحصال، بے حیائی اور بے غیرتی میں ظاہر ہوتی ہی، اور پھر یہ ذہنیت صرف چند افراد تک محدود نہیں رہتی بلکہ پوری قوم کو اس طرح گمراہی میں مبتلا کردیتی ہے کہ قوم کے اندر احساسِ زیاں ختم ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم نے اسی احساس کے فقدان کو بنی اسرائیل کی ہلاکت و بربادی کا سبب بتایا اور قرآن حکیم میں اس کی نشاندہی کی: ”تُو ان میں سے اکثر کو دیکھتا ہے کہ گناہ اور حدود ِالٰہی سے تجاوز اور حرام خوری کی طرف لپکتے ہیں۔ یہ کیسی بری حرکتیں تھیں جو وہ کرتے تھے۔ کیوں نا ان کے مشائخ اور علماءنے ان کو بری باتیں کرنی، کہنے اور حرام کے مال کھانے سے منع کیا؟ یہ بہت برا تھا جو وہ کرتے تھے۔ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داﺅد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کرائی گئی، اس لیے کہ انہوں نے سرکشی کی اور وہ حد سے گزر جاتے تھی، وہ ایک دوسرے کو برے افعال سے نہ روکتے تھے۔“ (المائدہ 11:5/9) آخری آیت کی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث منقول ہے جو قرآن کے مقصد کی مزید تشریح کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل میں جب بدکاری پھیلنے لگی تو حال یہ تھا کہ ایک شخص اپنے بھائی، دوست یا ہمسایہ کو برا کام کرتے دیکھتا تو اس کو منع کرتا کہ اے شخص خدا کا خوف کر۔ مگر اس کے بعد وہ اسی شخص کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتا اور بدی کا مشاہدہ اس کو اس بدکار شخص کے ساتھ میل جول اور کھانے پینے میں شرکت سے نہ روکتا۔ جب ان کا یہ حال ہوگیا تو ان کے دلوں پر ایک دوسرے کا اثر پڑگیا اور اللہ نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا اور ان کے نبی داﺅد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی۔“ راوی کہتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے تو جوش میں آکر اٹھ بیٹھے اور فرمایا: ”قسم ہے اس ذات ِپاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہی، تم پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم دو اور بدی سے روکو اور جس کو برافعل کرتے دیکھو اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے راہِ راست کی طرف موڑ دو اور اس معاملے میں ہرگز رواداری نہ برتو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر بھی ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا اور تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر کی۔“ مذکورہ بالا آیت اور حدیث میں قوموں کی تباہی کا ایک اور اصول بتایا گیا ہے کہ جب پوری قوم مفاسد کا شکار ہوجاتی ہے اور اس قوم کے نیک لوگ بھی برائیوں سے سمجھوتا کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے تو لعنت و ملامت ان کا مقدر ٹھیرتی ہے۔ کوئی قوم مقصد ِذلیل میں مبتلا ہوجائی، اس میں اخلاقی زوال انتہا کو پہنچ جائے اور ایمانی جرا ¿ت ختم ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کی بداعمالیوں کی پکڑ کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ: ”اور جب ہم کسی آبادی کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو اس کے دولت مندوں کی تعداد میں اضافہ کردیتے ہیں، اس لیے وہ فسق و فجور میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اب اس پر ہمارا قانونِ فطری منطبق ہوجاتا ہے اور ہم اس کو تباہ کردیتے ہیں۔“ (بنی اسرائیل: 2) ان آیات کی روشنی میں جب ہم بحیثیت قوم اپنے آپ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے حکمراں اور عوام و خواص کی اکثریت خودغرضی، لذت پرستی، عیش کوشی میں مبتلا اور برائی، بے حیائی، بدعنوانی و بے ایمانی سے سمجھوتا کرتی نظر آتی ہے۔ دولت مندوں کی کثرت اور ان کے فسق و فجور کی حالت و کیفیت عذاب ِالٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ خدا ہم پر رحم کرے اور ہمیں اس حالت سے نکالے۔ ہم نے یہ چند حوالے اس لیے پیش کیے ہیں تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ قرآن مجید قوموں کے عروج و زوال کے علم و تاریخ کا ایک بنیادی حصہ اور ماخذ ہے۔ یہ قرآن ہی کا اسلوب و اعجاز ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کے اصول و واقعات کو مسلم اور غیر مسلم مو ¿رخین و محققین نے بھی موضوعِ مطالعہ و تحقیق بنایا۔ مسلم مو ¿رخین میں علامہ ابن خلدون اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قابل ذکر ہیں جنہوں نے ”مقدمہ“ اور ”حجة اللہ البالغہ“ میں ملک و ملت اور تہذیب و تمدن کی ہلاکت و تباہی کی منظرکشی کی ہے جس کی وضاحت ذیل کے اقتباسات میں کی جارہی ہی: علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں کہ: ”جب شہری لوگوں کو دولت و ثروت مل جاتی ہے تو وہ فطرتاً ان کو تمدنی سازوسامان کی طرف مائل کردیتی ہی، اس لیے ان کے کھانے پینی، رہنے سہنے اور اوڑھنے کی تمام چیزوں میں رنگینی اور اعجوبگی پیدا ہوجاتی ہی، اور جب رنگین مزاجی اس درجہ کو پہنچ جاتی ہے تو انسان شہوانی خواہشوں کا غلام ہوکر دین ودنیا دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اس وقت لوگوںکے مصارف میں اضافہ ہوجاتا ہے اور چونکہ سلطنت کے عین شباب کے زمانے میں تمدن اپنی انتہائی ترقی کو پہنچ جاتا ہے اور ہر سلطنت میں ٹیکس لگانے کا یہی زمانہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس وقت سلطنت کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور ٹیکس کا تمام تر بار تجارت پر پڑتا ہے کیونکہ تجارت پیشہ لوگ جو کچھ صرف کرتے ہیں اس کو اسباب تجارت ہی سے وصول کرتے ہیں، اس لیے ٹیکس اشیاءکی اصل قیمت کا جزو ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ متمدن لوگوںکے اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں اور ان کی تمام آمدنی انہی مصارف میں صرف ہوجاتی ہے اور وہ مفلس اور محتاج ہوجاتے ہیں۔“ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اسی مسئلے کی وضاحت اس طرح کی ہی: ”جب فارسیوں اور رومیوں کو حکومت کرتے صدیاں گزر گئیں اور دنیوی تعیش کو انہوں نے اپنی زندگی بنالیا اور آخرت کو بھلا دیا اور شیطان نے ان پر غلبہ کرلیا تو ان کی تمام زندگی کا حاصل یہ بن گیا کہ وہ عیش پسندی کے اسباب میں منہمک ہوگئے اور ان میں کا ہر شخص سرمایہ داری اور تمول پر فخر کرنے اور اترانے لگا۔ یہ دیکھ کر دنیا کے مختلف گوشوں سے وہاں ایسے ماہرین جمع ہوگئے جو بے جا عیش پسندوں کو داد ِعیش دینے کے لیے عیش پسندی کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے اور سامانِ عیش مہیا کرنے کے لیے عجیب و غریب دقیقہ سنجیوں اور نکتہ آفرینیوں میں مصروف نظر آنے لگے۔ اور قوم کے اکابر اس جدوجہد میں مشغول نظر آنے لگے کہ اسباب ِتعیش میں کس طرح وہ دوسروں پر فائق ہوسکتے ہیں اور دوسروں پر فخر و مباہات کرسکتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے امراءاور سرمایہ داروں کے لیے یہ سخت عیب اور عار سمجھا جانے لگا کہ ان کی کمر کا پٹکہ یا سر کا تاج ایک لاکھ درہم سے کم قیمت کا ہو، یا ان کے پاس سربفلک محل نہ ہو جس میں پانی کے حوض، سردو گرم حمام، بے نظیر پائیں باغ اور نمائش کے لیے ضرورت سے زائد بیش قیمت سواریاں، حشم و خدم اور حسین و جمیل باندیاں موجود ہوں اور صبح و شام رقص و سرود کی محفلیں گرم ہوں اور جام و سبو سے شراب ارغوانی چھلک رہی ہو اور فضول عیاشی کے وہ سب سامان مہیا ہوں جو آج بھی تم عیش پسند بادشاہوں اور حکمرانوں میں دیکھتے ہو اور جس کا ذکر قصہ طولانی کے مترادف ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ مملکت کی اکثریت کی یہ حالت تھی کہ دلوں کا امن و سکون لٹ گیا تھا، ناامیدی اور کاہلی بڑھتی جاتی تھی اور بہت بڑی اکثریت رنج و غم اور آلام و مصائب میںگھری نظر آتی تھی۔ اس لیے کہ ایسی مصرفانہ عیش پرستی کے لیے زیادہ سے زیادہ رقوم اور آمدنی درکار تھی اور وہ ہر شخص کو میسر نہ تھی۔ البتہ اس کے لیے بادشاہ، نواب امراءاور حکام نے معاشی دست برد شروع کردی اور اس کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ کاشت کاروں، تاجروں، پیشہ وروں اور اسی طرح دوسرے کارپردازوں پر طرح طرح کے ٹیکس عائد کرکے ان کی کمر توڑ دی اور انکار کرنے پر ان کو سخت سے سخت سزائیں دیں اور مجبور کرکے ان کو ایسے گھوڑوں اور گدھوں کی طرح بنادیا جو آب پاشی اور ہل چلانے کے لیے کام میں لائے جاتے ہیں، اور پھر کارکنوں اور مزدور پیشہ لوگوںکو اس قابل بھی نہ چھوڑا کہ وہ اپنی حاجات کے مطابق کچھ نہ کچھ پیدا کرسکیں۔ خلاصہ یہ کہ ظلم و بداخلاقی کی انتہا ہوگئی۔ آخر جب اس مصیبت نے ایک بھیانک شکل اختیار کرلی اور مرض ناقابلِ علاج حد تک پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھا اور اس کی غیرت نے تقاضا کیاکہ اس مہلک مرض کا ایسا علاج کیا جائے کہ فاسد مادہ جڑ سے اکھڑ جائے اور اس کا قلع قمع ہوجائے۔ اس نے ایک نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا۔ وہ آیا اور اس نے روم و فارس کی ان تمام رسوم کو فنا کردیا اور عجم و روم کے رسم و رواج کے خلاف صحیح اصولوں پر ایک نئے نظام کی بنیاد ڈالی۔“ علامہ ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ کی تحریروں کے اقتباسات پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ تحریریں پاکستان کے طبقہ ¿ اشرافیہ کی حالت و کیفیت کو دیکھ کر قلمبند کی گئی ہوں۔ ہمارے حکمرانوں کے لچھن، ٹیکسوں کی بھرمار، عوام کی مفلسی و غربت، تاجر طبقے کی پریشانیاں، ٹیکنالوجی کے نام پر عیش پسندی کے طریقے اور دلچسپیاں، حکمرانوںکے محلات اور سواریاں، بداخلاقی اور بدعنوانی کی انتہا.... یہ سب کچھ ہمارے ملک کے حکمرانوں پر صادق آتا ہے۔ تاہم اب اس حالت و کیفیت کو بدلنے کے لیے کوئی پیغامبر تو نہیں آئے گا، اب یہ ذمہ داری تو مسلم عوام پر عائد ہوتی ہے جیسا کہ مخبرِ صادق، خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ ”جس کو برا فعل کرتے دیکھو اس کا ہاتھ پکڑو اور اسے راہِ راست کی طرف موڑ دو، اور اس معاملے میں ہرگز رواداری نہ برتو۔“ تو اب پوری قوم کو صحیح اصولوں پر ایک نئے نظام کے قیام کے لیے اٹھنا ہوگا، ورنہ مسلم مو ¿رخین کی طرح غیر مسلم مو ¿رخین Edward Gibbon نے اپنی کتاب ''The Rise and Fall of Roman Empire''، Well Hausen کی کتاب '' The Arab Kingdom and its Fall''، Toybnbee کی کتاب ''Civilisation on Trial'' اور William Muir کی کتاب ''The Calipate, Its Raise, Decline anol fall'' نے بھی قوموں اور ان کی تہذیبوں کے عروج و زوال کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ لیکن اس وقت ہمارے پیش نظر برعظیم پاک و ہند کے عظیم اسکالر، دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی کتاب ”مسلمانوں کا عروج و زوال“ ہے جس میں مولانا اکبر آبادی نے خلافت ِراشدہ سے لے کر ہندوستان میں مغل سلطنت کے عروج و زوال کی تاریخ قلمبند کی ہے۔ مولانا اکبر آبادی نے علمی و تاریخی حقائق کی روشنی میں مختلف ادوار میں مسلمانوں کی حکومتوں، ان کی سیاسی حکمت عملیوں پر تبصرہ کرکے ان اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا ہے جو مسلمانوں کے غیر معمولی عروج، اور عروج کے بعد لرزہ خیز انحطاط و زوال میں مو

عروج و زوال کا نظام



دُنیا میں شاید ہی کوئی قوم ایسی گزری ہو جس نے عروج اور زوال نہ دیکھا ہو۔ یہ فطری قانون ہے کہ ایک قوم اگر زوال پذیر ہے اور وہ جہد مسلسل کرتی ہے توعروج حاصل کرلیتی ہے۔ یا کوئی قوم اپنے عروج پرگھمنڈ کرتی ہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اسے زوال اور ناکامی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ عروج و زوال پوری انسانی تاریخ میں جاری رہا اور آج بھی شدومد کے ساتھ جاری ہے۔تاہم اس قانون کا تعلق اسلام کے ساتھ نہیں ہے۔ اسلام ہمیشہ سے انسانی عروج کا ذریعہ رہا ہے اور قیامت تک رہے گا۔ یہ بات اس لیے کہنی پڑرہی ہے کہ بعض کم فہم لوگ مسلمانوں کی موجودہ حالت کو اسلام کے عروج و زوال سے جوڑ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک، مسلمان کا ماضی اگر سیاسی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے تاب ناک تھا تو اسلام عروج پر تھا۔ اور آج مسلمان سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر بدحالی کا شکار ہیں تو یہ اسلام کے زوال اور اس کی ناکامی کی علامت ہے۔

یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو اگرچہ اسلام دشمن قوتوں نے پھیلائی ہے، لیکن اسلام پسند طبقہ بھی بعض اوقات اس رَو میں بہہ کرا س قسم کی باتیں کرجاتا ہے کہ کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

اسلام تو ایک ضابطہٴ حیات اور سسٹم ہے، جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سنوارنے اور موت کے بعد کی ابدی کامیابی دینے کی حکمت عملی فراہم کرتا ہے۔ اس کے برخلاف مسلمان ان افراد کا مجموعہ ہیں جو اسلام کو دین حق مانتے اور اسے دُنیا و آخرت کی کامیابی و فلاح کے لیے واحد اور موثر نظام تسلیم کرتے ہیں۔ پھر اس نظام میں بعض چیزیں مادی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں (موت سے پہلی کی زندگی) اور بعض چیزیں اخروی زندگی (موت کے بعد کی زندگی) سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس بنا پر جو قوم بھی اس نظام پر یقین رکھے گی اور عمل کرے گی، عروج حاصل کرے گی، یعنی کامیاب ہوگی، اور جو قوم اس پریقین نہیں رکھے گی اور عمل نہیں کرے گی، زوال پذیر ہوجائے گی۔ اور اس عروج و زوال کا تعلق موت سے پہلے اور موت کے بعد کی دونوں زندگیوں سے ہے۔

تاہم اسلام کسی قوم کا یا کسی ایک نسل کا مذہب نہیں ۔ اسلام کی دعوت ہر جیتے جاگتے انسان کے لیے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نسل و قومیت کے پرستاروں اور اپنی قوم کو دوسری قوموں سے برتر سمجھنے والوں کے برخلاف اس حقیقت کا اعلان فرمایا کہ اس دنیا میں کامیابی اور کامرانی کسی ایک قوم کی میراث نہیں اور نہ جسم و دماغ، عقل و ادراک، فہم و فراست، شرافت و نجابت اور جواں مردی اور شجاعت کے فطری عطیے کسی نسل کے ساتھ مخصوص ہیں۔ نیز خدا کی بخشش اور مغفرت بھی کسی خاص قوم کے لیے نہیں بلکہ معاملہ اس دنیا کا ہو یا آنے والی دنیا کا، ہر شے ایک ضابطے اور قانون کی پابند ہے۔

آج مسلمان جس زوال پذیر کیفیت سے گزر رہے ہیں، اس کے اسباب میں ایک غلط فہمی یہ بھی شامل رہی ہے کہ گزشتہ چند نسلوں میں یہ زعم پیدا ہوگیا کہ ہم چونکہ مسلمان ہیں، اس لیے ہم خدا کے مقرب ہیں اور دنیا کی وجاہت ہمارا ہی مقدر ہے۔ یہ وہی غلط فہمی ہے جو یہود و نصاریٰ میں پیدا ہوئی اور پھر وہ خدا کے عتاب کا شکار ہوئے۔ مسلمانوں میں اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے اسلام کو عملاً اپنی زندگی سے خارج کردیا۔ اور پھر آج ہم اسی غلط فہمی کی بہ دولت ناکامی اور ندامت کا منھ دیکھ رہے ہیں۔

اسلام وہی ہے جو آج سے چودہ سو برس پہلے تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُس دور کے مسلمانوں نے اسلام کو صرف زبان ہی سے تسلیم نہیں کیا تھا، صدقِ دل سے اس پر عمل بھی کیا تھا۔ آج ہم زبان سے بھی تسلیم کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں اور عمل سے تو بالکل بے نیاز ہیں ہی۔ تو پھر اللہ کا نظام اپنے اثرات کیوں کر پیدا کرے گا؟


عروج و زوال کا قانون


موجودہ دور میں جب یہ بات کی جاتی ہے کہ قوم کی تعمیر ہونی چاہیے، ہمیں اپنے اندر صبر پیدا کرنا چاہیے۔ اس وقت ہم اپنی قوتیں، بہترین نوجوان اور وسائل جو غیر ضروری معاملات کی جد وجہد میں ضائع کر رہے ہیں ، ان کو اپنی تعمیر پر صرف کریں تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ مغرب تو اصل میں یہی چاہتا ہے کہ ایسا ہی کریں اور یہ کشاکش ختم ہو جائے تاکہ میدان ان کے لیے چھوڑ دیا جائے۔اس بارے میں آپ کیا فرمائیں گے؟
:سوال

اللہ تعالیٰ نے میدان کسی کے ہاتھ میں بھی ہمیشہ کے لیے نہیں دے رکھا ہوا۔ ہم دنیا پر حکومت کر رہے تھے تو میدان ہمارے ہاتھ سے بھی نکل گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے جس کے تحت قوموں کا عروج و زوال ہوتا رہتا ہے۔ جب مغرب نے اپنا حق ثابت کردیا تو ان کو دنیا کی حکومت حاصل ہوئی۔ ہم بھی استحقاق پیدا کر لیں گے تو خدا کا ہاتھ فوراً کارفرما ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات قرآن مجید میں بہت اچھے طریقے سے واضح کر دی ہے کہ 'اِنَّ اﷲَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ' (الرعد ١٣: ١١)(اللہ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اس وقت تک نہیں بدلتاجب تک وہ خود اپنی روش میں تبدیلی نہ کرے)۔اللہ قوموں کا انتخاب تو آزمایش اور امتحان کے اصول پر کرتا ہے اور ہر قوم کو باری باری موقع دیتا ہے کہ وہ میدان میں آئے اور جو کچھ کر سکتی ہے کرے، لیکن اس کے ہاتھ سے اقتدار اس وقت چھینتا ہے،جب وہ خود اپنے ساتھ زیادتی کر بیٹھتی ہے۔ قرآن مجید نے تو یہ اعلان کیا ہے کہ اس دنیا کے ختم ہونے سے پہلے ایک ایک قوم کو اس اسٹیج پر نمودار ہونا ہے اور اس کے بعد اس کو ہلاکت کے سپرد ہو جانا ہے۔ یہ معاملہ تو چل رہا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کسی کو کھلا ہاتھ دے رکھا ہواہے اور شیطان کے ہاتھ میں دنیا کی باگ آ گئی ہے۔ ایک قانون ہے جس کے مطابق معاملات ہو رہے ہیں۔ اگر ہم اس قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں گے تو ہمارے حق میں بھی فیصلہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے لیے اصلی کام جو کرنے کا تھا وہ اس بات کا احساس کرنے کا تھا کہ ہم علم و اخلاق اور سیرت وکردار میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو ہدف بنا کر ہمیں کام کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ جو سیاسی نوعیت کے بعض جھگڑوں کو ہم بڑی اہمیت دے لیتے ہیں اور جن کو اپنے لیے زندگی اور موت کامسئلہ بنا لیتے ہیں، ان کے معاملے میں حقیقت پسندانہ رویہ ناگزیر تھا۔
یہ تلخ حقیقت یاد رکھنی چاہےے کہ جب آپ دنیا میں پیچھے رہ جاتے ہیں تو پھر آپ کو انصاف نہیں ملا کرتا۔ پھر آپ ممکنات کے اندر سے راستہ نکالتے ہیں۔ اس طرح کے موقعوں پر اچھی لیڈر شپ وہ ہوتی ہے، جو اپنے آپ کو بچا لے جائے۔ انبیا علیہم السلام نے یہ موقع حاصل کیا ہے۔ سیدنا مسیح نے یہی کیا، سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی کیا۔ خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر، مزاحمت سے ہاتھ کھینچ کر ، امن کا معاہدہ کر کے اپنے لیے کسی حد تک موقع حاصل کیا تاکہ اپنی تعمیر کی جا سکے، اپنی دعوت کو پھیلایا جا سکے۔

مسلمانوں کا زوال


مسلمان کم و بیش ایک ہزار سال تک دنیا کی ایک بڑی طاقت رہے ہیں۔ علم و حکمت، تدبیر و سیاست اور دولت و حشمت میں کوئی قوم اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ پوری دنیا پر حکومت کر رہے تھے۔ یہ بادشاہی خدا نے اُنھیں دی تھی اور خدا ہی نے اُن سے چھین لی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں خدا کا قانون یہ ہے کہ وہ سرفرازی کے لیے تو جسے چاہتا ہے، اپنے قانون ابتلا کے مطابق منتخب کر لیتا ہے، لیکن جب ایک مرتبہ منتخب کر لیتا ہے تو اُس کی یہ حالت اُسی وقت تبدیل کرتا ہے، جب علم و اخلاق کے لحاظ سے وہ اپنے آپ کو پوری طرح پستی میں گرا دیتی ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ ایک دوسرا معاملہ بھی ہوا ہے۔ اُن کی اصل ہمیشہ عرب رہے ہیں۔ وہ زیادہ تر بنی اسمٰعیل ہیں اور بنی اسمٰعیل کے بارے میں معلوم ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت ہیں۔ چنانچہ اُن پر اُس سنت الٰہی کا اطلاق بھی ہوتا ہے جو قرآن میں ذریت ابراہیم سے متعلق بیان ہوئی ہے۔ وہ سنت یہ ہے کہ یہ لوگ اگر حق پر قائم ہوں تو اِنھیں قوموں کی امامت حاصل ہو گی اور اُس سے انحراف کریں تو اِس منصب سے معزول کر کے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کر دیے جائیں گے۔
چنانچہ مسلمان اگر اِس عذاب میں مبتلا ہیں تو یہ کوئی الل ٹپ معاملہ نہیں ہے اور نہ دوسروں کی سازش کے نتیجے میں ہوا ہے، جس طرح کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی زعما بالعموم کہتے ہیں۔ اِس کے متعین اسباب ہیں، یہ اُنھی کے تحت ہوا ہے۔ اِس کے پیچھے خدا کا قانون عزل و نصب کار فرما ہے۔ اُس کی روشنی میں اِسے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو زوال کے اسباب بالکل واضح ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔
یہ بنیادی طور پر تین ہیں:
اولاً، مسلمان کتاب الٰہی کے حامل بنائے گئے تھے۔ یہ محض کتاب نہیں ہے۔ یہ خدا کی میزان ہے جو اِس لیے نازل کی گئی ہے کہ دین کے معاملے میں تمام حق و باطل کا فیصلہ اِسی پر تول کر کیا جائے۔ مسلمان اپنے تمام اختلافات اِس کے سامنے پیش کریں اور جو فیصلہ اِس کی بارگاہ سے صادر ہو جائے، بے چون و چرا اُسے قبول کر لیں۔ یہ اُن کے علم و عمل کا مرکز ہو۔ ایمان و عقیدہ اور دین و شریعت کے تمام معاملات میں یہی مرجع بنے، ہر تحقیق، ہر راے اور ہر نقطہ نظر کو ہمیشہ اِس کے تابع رکھا جائے، یہاں تک کہ خدا کے پیغمبروں کی کوئی بات بھی اِس پر حکم نہ سمجھی جائے، بلکہ ہر چیز پر اِسی کو حکم مانا جائے۔ گذشتہ کئی صدیوں سے مسلمان بدقسمتی سے کتاب الٰہی کی یہ حیثیت اپنے علم و عمل میں برقرار نہیں رکھ سکے۔ چنانچہ اقبال کے الفاظ میں 'خوار از مہجوریِ قرآں شدی' * کا مصداق بن کر رہ گئے ہیں۔
ثانیاً، دنیا عالم اسباب ہے۔ یہ اسباب زیادہ تر سائنسی علوم میں انسان کی مہارت سے پیدا ہوتے ہیں۔ خدا نے اپنے جو خزانے زمین و آسمان میں مدفون رکھے ہوئے ہیں، وہ اِسی مہارت سے نکالے جا سکتے ہیں۔ انسان کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عروج و زوال تو ایک طرف، اُس کے مرنے اور جینے کا انحصار بھی بیش تر اِنھی علوم میں مہارت پر رہا ہے۔ آگ کی دریافت اور پہیے کی ایجاد سے لے کر دور جدید کے حیرت انگیز انکشافات تک یہ حقیقت تاریخ کے ہر صفحے پر ثبت ہے۔ مسلمانوں کو اِن علوم سے دل چسپی تو ہوئی، مگر اُن کے ذہین عناصر کا اشتغال زیادہ تر فلسفہ اور تصوف سے رہا، حالاں کہ اِس کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ فلسفہ و تصوف جن سوالات سے بحث کرتے ہیں، خدا کی کتاب حتمی حجت کی حیثیت سے اُن کا جواب لے کر نازل ہو چکی تھی۔ اِن علوم کے ساتھ اشتغال نے مسلمانوں کو خدا کی کتاب سے بھی بے گانہ رکھا اور سائنسی علوم سے بھی۔ پرانے مدرسوں میں وہ اب بھی فلسفہ و تصوف کے وہی مباحث دہرا رہے ہیں جو 'علم لا ينفع' ** کی بہترین مثال ہیں۔ چنانچہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور وہ تصویر حیرت بنے ہوئے ہیں۔
ثالثاً، مسلمانوں نے اپنی اخلاقی تربیت سے شدید غفلت برتی ہے۔ یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ جھوٹ، بددیانتی، غبن، خیانت، چوری، غصب، ملاوٹ، سود خوری، ناپ تول میں کمی، بہتان طرازی، وعدے کی خلاف ورزی، سفلی علوم سے اشتغال، ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق، قبروں کی پرستش، مشرکانہ رسوم، بے ہودہ تفریحات اور اِس نوعیت کے دوسرے جرائم اُن کے معاشروں میں اِس قدر عام ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ بنی اسرائیل کے یہی جرائم تھے جن کی بنا پر خدا کے نبیوں نے اُن پر لعنت کی تھی اور وہ ہمیشہ کے لیے خدا کی رحمت سے دور کر دیے گئے۔ مسلمان بھی اِسی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اُن کی تصویر دیکھنا ہو تو انجیل کے صفحات میں دیکھ لی جا سکتی ہے، جہاں سیدنا مسیح علیہ السلام نے بنی اسرائیل اور اُن کے علما و احبار، دانش وروں اور ارباب حل و عقد کی فرد قراردادجرم بیان کی ہے۔ اُن کے درودیوار، گلیاں اور بازار، سب پکارتے ہیں " یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود"۔
مسلمانوں کا زوال اِن اسباب سے ہوا ہے۔ وہ انحطاط و زوال کی اِس حالت سے نکلنا چاہتے ہیں تو نہ جہاد و قتال سے کچھ ہو سکتا ہے، نہ مزاحمت کی تحریکوں سے۔ سرنگا پٹم سے افغانستان تک پچھلے دو سو سال کی تاریخ اِس کی گواہی دیتی ہے۔ اِس سے نکلنے کے لیے اُنھیں وہ اسباب دور کرنا ہوں گے جو اُن کے زوال کا باعث بنے ہیں، ورنہ یہی ذلت و نکبت اور محکومی ہمیشہ اُن کا مقدر رہے گی۔ خدا کا قانون بے لاگ ہے۔ وہ اُس کی زد میں آچکے ہیں۔ وہ جب دوسروں سے لڑ کر اِس سے نکلنا چاہتے ہیں تو درحقیقت خدا سے لڑ رہے ہوتے ہیں جس نے اپنے 'اولی باس شدید'بندے اُن پر مسلط کر دیے ہیں۔ یہ خدا کا عذاب ہے۔ اِس سے بچنے کے راستے وہ نہیں ہیں جو اُن کے مذہبی اور سیاسی رہنما اور بزعم خود مجاہدین اُنھیں بتا رہے ہیں۔ اِن راستوں پر چل کر نہ وہ بڑی طاقتوں کا اثرورسوخ اپنے ملکوں میں ختم کر سکتے ہیں، نہ فلسطین اور کشمیر سے یہودوہنود کو نکال سکتے ہیں۔ وہ قرآن اور بائیبل، دونوں میں انبیا علیہم السلام کی دعوت کا مطالعہ کریں۔ خدا کے پیغمبر بابل کی اسیری کے زمانے میں آئے ہوں یا رومی حکمرانوں کے دور میں، اُنھوں نے کبھی یہ راستے اپنی قوم کو نہیں بتائے۔ وہ اپنی قوم کے جرائم اُسے بتاتے تھے، یہ دوسروں کے جرائم ڈھونڈنے اور اُنھیں بُرا بھلا سنانے کو اپنا ہنر سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اُسے ابتدا سے انتہا تک دیکھ لیجیے۔ بابل اور روم کے حکمرانوں کے خلاف آپ مذمت کا ایک لفظ اُس میں نہیں دیکھیں گے، بلکہ ہر جگہ بنی اسرائیل کی فرد قرار داد جرم دیکھیں گے۔ یہی فرد جرم اِس وقت مسلمانوں کو بھی سنانے کی ضرورت ہے، اِس لیے کہ خدا کا جو وعدہ بنی اسرائیل سے تھا، وہی مسلمانوں سے ہے کہ تم میرے عہد کو پورا کرو، میں تمھارے ساتھ اپنے عہد کو پورا کروں گا۔ میری رحمت منتظر ہے، لیکن اِنھی راستوں پر چلتے رہو گے تو میں بھی اُسی راستے پر چلوں گا جس پر چل رہا ہوں اور میرے عذاب کا تازیانہ تمھاری پیٹھ پر برستا رہے گا۔ فاعتبروا يا اولی الابصار۔
ـــــــــــــــــــــــــ
* تم قرآن کو چھوڑ کر خوار ہوئے ہو۔
** وہ علم جو نفع نہ دے۔
امت مسلمہ زوال پذیر کیوں ہے؟
سوال: دور جدید میں ہم دیکھتے ہیں کہ غیرمسلم اقوام  مادی اعتبار سے اپنے عروج پر ہیں۔ اس کے برعکس امت مسلمہ زوال کا شکار ہے۔ ایک دور تھا جب ہم نے سپر پاور کی حیثیت سے دنیا کے بڑے حصے پر حکومت کی ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ ہم زوال کا شکار ہو گئے اور غیر مسلم مغربی اور ایشیائی اقوام ترقی کرگئیں اور اب وہ سپر پاور کی حیثیت سے ہم پر حکومت کر رہی ہیں؟
جواب:  قوموں کے عروج و زوال سے متعلق اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے جو مسلم و غیر مسلم تمام اقوام پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ اس قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ایسی اقوام کو عروج بخشا ہے جن میں یہ دو خصوصیات پائی جاتی ہوں:
•        علمی اعتبار سے وہ اپنی ہم عصر اقوام سے ممتاز ہوں۔  سائنس اور ٹیکنالوجی میں کوئی ان کا ہم پلہ نہ ہو۔ ان کا سیاسی، اقتصادی ، سماجی نظام دوسروں سے بہتر ہو اور دوسری اقوام کے مقابلے میں وہ بہتر وسائل اور توانائی کے ذرائع کو کنٹرول کر سکتی ہوں اور ان کا استعمال بھی دوسروں سے بہتر طریقے سے کر سکتی ہوں۔
•        اخلاقی اعتبار سے وہ دوسری اقوام سے بہتر درجے پر فائز ہوں۔  ان اخلاقیات میں بالخصوص سچائی، دیانت داری،ملک و ملت کے لئے قربانی کا جذبہ،  کام کرنے کا اعلیٰ معیار (High Standards in Work Ethics) ، وفاداری، ملکی اور بین الاقوامی معاہدوں کا احترام، اپنی قوم کے اچھے افراد کے لئے احترام وغیرہ شامل ہیں۔ 
          جب تک امت مسلمہ ان دونوں معیارات پر اپنے زمانے کی دیگر اقوام کے مقابلے میں نسبتا بہتر مقام پر موجود رہی، دنیا میں اسی کا سکہ چلتا رہا۔  عالمی تجارت اور  دنیا کے سیاسی معاملات اسی کی مرضی سے چلتے رہے، لیکن جب امت مسلمہ ان دونوں معیارات میں اپنی معاصر اقوام سے پیچھے رہ گئی اور دنیا کا اقتدار دوسری اقوام کو منتقل ہوا۔  اب بھی اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ کا عروج واپس آجائے تو اس کے لئے مسلمانوں کو علمی اور اخلاقی اعتبار سے بہتر بنانا ہوگا ورنہ ہمارا ہر خواب محض ایک سراب بن کر رہ جائے گا۔
 

۔

Leave a Reply

All Rights are Reserved By A Pak Media Designed By WAQAS And Zeeshan Ali.
preload preload preload